Press "Enter" to skip to content

Stories In Urdu | Khuda Aur Muhabat Part 5

خدا اورمحبت
سیزن4
Episode5


داداجان! کل لڑکے والے آرہے ہیں،ثانی کو دیکھنے کے لیے
سرمد نے ثانی کو سناتے ہوئے سلمان شاہ سے کہا
ثانی کی سانس اٹک گئی
اگلے دن ٹپیکل رواج کے مطابق ثانی کو مہمانوں کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں لڑکی پسند بھی آگئی۔ انہوں نے بنا کسی دیری کے منگنی کی انگوٹھی ثانی کو پہنا دی اوراپنی کسی مجبوری کا بتا کر چھ ماہ بعد شادی کی ڈیٹ فکس کردی۔
ثانی اب زندہ اور مردہ کے بیچ کے کسی سٹیٹ میں پھنس گئی تھی۔ سانس چلے مگر یوں کہ ابھی رُکی سمجو، مگر افسوس کہ رُک بھی نا پائے
قاسم ایک اچھی شکل و صورت کا مالک تھا،مگر عقل اور شکل ایک جیسی نہیں ہوتی۔۔۔۔ کبھی کبھار معصوم شکل کے پیچھے ایک بھیانک کردار چھُپا ہوتا ہے اور کبھی بھیانک چہرے کے پیچھے نیک دل۔۔۔۔۔۔ ثانی کی قسمت کا فیصلہ کیا ہونے جارہا تھا یہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔۔


کچھ دنوں میں سعد کو ایک اچھی اپرچونٹی ملی کالج کی طرف سے اور وہ امریکہ چلا گیا
گوتم کے ایک رشتہ دار نے ترس کھا کر انہیں پناہ دی،مگر گوتم کو جہاں کہیں بھی کام کے لیے بھیجا جاتا وہ آدھا آدھورا کام کرتا اور زیادہ تر اپنی ہی سوچاں میں گم رہتا۔ جب کبھی حالت زار ہوتی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بنا کسی کو بتائے گاؤں سے باہر ایک مسجد کے باہر کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔۔ آتے جاتے نمازیوں کو دیکھتا، ثانی کی عبادت،سلمان شاہ کی مسلم مزہب کی باتیں اسکے زہن میں گھومتی رہتی۔۔۔
میری مانگ بہت بڑی ہے،مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کس سے مانگوں””
اسنے ثانی سے کہا تھا
تو تم ایک کام کرو میرے رب سے مانگ کر دیکھو،دعا جتنی بھی بڑی کیوں نا ہو میرا رب ضرور پوری کرتا ہے
ثانی نے اسے جواب دیا تھا


مسجد کے باہر کھڑے اسکے ہاتھ خود بہ خود دعا میں اُٹھ گئے،لیکن اسے ابھی یہ علم نہیں تھا کہ اُس اللہ سے دعا کیسے مانگی جاتی ہے۔ ویران آنکھیں،خاموش زبان مگر اسکی خاموشی میں چھپی تڑپ نظر آرہی تھی
اسی بیچ اسکی بڑی بہن کی شادی طے پائی۔ شادی کا سن کر اسے بہنوں کی طرف اپنی زمہ داری کا احساس ہوا۔ وہ بہت شرمندہ ہوا کہ صرف اپنے بارے میں سوچ کر کتنی تکلیف وہ اپنی ماں اور بہنوں کو دے رہا ہے۔ بلاخر اسنے خود کو سمبھالنے کا سوچا اور ایک جگہ کام کرنے لگا، کام بہت مہنت طلب تھا مگراسنے کرنے کی ٹھان لی کہ اپنی بہن کی شادی کروا کر کم از کم اپنی غلطیوں کا ازالہ کر سکےگا۔
اسکے باوجود جب وہ بہت پریشان ہوتا تو اسی نہر کنارے جا کر بیٹھ جاتا،یا پھر مسجد کے باہر کھڑا رہتا۔ اسکی بہن کی شادی خیر سے ہو گئی اور اسکے زہن سے ایک بوجھ کم ہوا کہ اسنے کوئی زمہ داری پوری نہیں کی۔
یہاں تک آکر مسجد کے اندر کیوں نیں آتے بیٹا؟


وہ معمول کے مطابق مسجد کے باہر کھڑا تھا جب امام مسجد نے اس سے آکر پوچھا
میں ایک غیر مسلم ہوں،ایک ہندو۔ ایک مرتبہ میرے قدم پڑنے سے کسی کا گھر ناپاک ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرے قدم پڑنے سے خدا کا گھر بھی ناپاک نا ہو جائے
بیٹا! یہ اللہ کا گھر ہے۔ اُس پاک ذات کا جسکا نام لینے سے ناپاک بھی پاک ہو جاتا ہے، پھر بھلا تمھارے قدموں سے یہ کیسے ناپاک ہو سکتا ہے؟(امام مسجد نے کہا)
میں تمہیں روز دیکھتا ہوں ہیاں کھڑے ہوئے۔ کیا تمہیں اس مسجد سے،اس دین سے رغبت ہے؟
وہ تو پتا نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن کچھ ہے جو یہاں تک کھینچ لاتا ہے،۔۔۔۔ میں اپنے مزہب سے بے زار ہو چُکا ہوں۔۔۔۔ اپنی عبادت کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ بھول چُکا ہوں اپنی عبادت۔۔۔۔
بیٹا! وہ بھی کوئی عبادت ہے؟بے جان جسموں کے سامنے ماتھا پیٹتے رہو۔ بھلا انہیں کیا فرق پڑے گا کون مرا،کون جیا
اسی سے تو بے زار ہوں،(گوتم نے بے چارگی سے کہا)مجھے سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔ کہاں جاؤں کس سے مانگوں۔ کوئی تو ہو جو مجھے تھوڑا سا سکون بخش دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بھی تو کوئی پُکار سُن لے(اب وہ اپنے آپے سے باہر ہو رہا تھا)
بیٹا! ایک بات بولوں؟


اسلام قبول کر لو(امام کی بات پر وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہ گیا)
تمہیں سب کچھ مل جائے گا،سکون بھی ،ایک سچا دین بھی۔اور یقینن تمہاری دعائیں بھی قبول ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان ہو جاؤاور پھرکھُلم کھُلا مسجد کے اندر آؤ،عبادت کرو،دعائیں مانگو۔ تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو کیا کہتے ہو،ہونا ہے مسلمان؟
اگلے دن گاؤں کے چند لوگوں کی موجودگی میں مولوی صاحب نے ایمان کی کچھ شرائط پوری کیں اور گوتم کو کلمہ پڑوایا۔ ہر طرف مبارک ہو،مبارک ہو کی آواز گونج اُٹھی۔ گوتم بہیت خوش تھا۔ خوشی اور جزبات کی ملی جُلی کیفیت سے دوچار وہ سجدے میں گر پڑا۔ یہ اسکی زندگی کا پہلا سجدہ تھا،اسنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسے جھوٹے دین سے نجات دے کر سچ کی راستے پر چلنے کا موقع دیا گیا۔اسنے سجدے سے سر اُٹھایا،اسکے رُخسار آنسوؤں سے بھیگ رہے تھے۔امام صاحب نے اسے گلے مل کر مبارک باد دی۔ وہ سارا دن مسجد میں رہا،پانچوں نمازیں ادا کیں اور مولوی صاحب سے ایمان کی ضروری باتیں سیکھیں۔ عشاء کی نماز کے بعد وہ گھر چلا گیا۔ اگلے دن صبح سویرے وہ مسجد میں موجود تھا۔ فجر کی نماز کے بعد بھی وہ گھر نہیں گیا۔


ظُہر کی نماز کے بعد امام صاحب نے دیکھا کہ وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سر جھُکا کر بیٹھا ہے۔ وہ اسکے پاس آئے۔
بیٹا! تم گھر نہیں گئے؟
اماں نے گھر سے نکال دیا ہے،اسلام قبول کرنے۔۔۔۔ کی وجہ سے۔ (اسنے وضاحت کی)
اس لیے یہاں آگیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رب تو بہت رحیم ہے، یہ تو مجھے اپنے گھر سے جانے کو نہیں کہے گا نا؟
بے شک، جسکا کوئی سہارا نہیں ہوتا اسکا سہارا وہ معبود بر حق ہوتا ہے۔ تم چاہے تو ساری زندگی یہاں رہو تمہیں کوئی یہاں سے جانے کا نہیں کہے گا۔ لیکن بیٹا اگر مُناسب سمجھو تو میرے ساتھ میرے گھر چلو
آپکے گھر؟(اسنے حیرانی سے پوچھا)
ہاں، میرے گھر۔ آج سے تم میرے بیٹے ہو۔ اور تمہارا نام آج سے جہانگیز ہے
جہانگیز؟ وہ مزید حیران ہوا
میرے بیٹے کا نام تھا۔ بلکل تمہارے جیسا ہی تھا۔ جوان، خوبصورت۔ سات سال پہلے تبلیغی جماعت کے ساتھ گیا تھا،دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔(امام صاحب کچھ جزباتی ہو گئے) اسکے صدمے سے میری بیوی بھی زیادہ دن نہیں جی سکی،وہ بھی چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ خیر جو اس مالک کی مرضی۔ اب میرے گھر میں میرے علاوہ صرف میری بیٹی۔ تم چلوگے تو اسے بھی اچھا لگے گا۔
گوتم اسکی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔


کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟(امام صاحب نے اسے یوں بے دم دیکھ کر پوچھا)
دیکھ رہا ہوں کہ یہ رب واقعی بہت رحیم ہے۔۔۔۔ ابھی تو میں نے بے گھر، بے سہارا ہونے کی شکائت بھی نہیں کی تھی اس سے۔ اور اسنے پہلے ہی میری شکائت دور کر دی۔
بے شک میرا اللہ بہت رحیم وکریم ہے(امام صاحب نے اسکی بات کی تصدیق کی)
میں شکرانے کے نوافل ادا کر لوں،پھر چلتے ہیں(گوتم نے کہا)
ہاں،ضرور۔ بلکہ چلو میں بھی پروردگار کا شکر ادا کر لوں۔اسنے ایک بار پھر سے بیٹے سے نوازا ہے۔
وہ دونوں شکرانے کے نوافل ادا کرنے لگے۔
امام مسجد کلیمُاللہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا جہاں اسکی بیٹی محلے کے چند بچوں کو قُرآن پاک پڑھا رہی تھی۔
اسنے نے جہانگیز کا تعارف کروایا۔ دعا اس سے مل کر بہت خوش ہوئی،اسنے جہانگیز کو ایک بھائی کے روپ میں خوشی خوشی قبول کر لیا۔


کچھ دنوں کی ہچکچاہٹ کے بعد سب کچھ اچھا ہو گیا۔ دعا جہانگیز سے اپنے سگے بھائی کی طرح ہی پیش آتی۔ اسکا دھیان بٹانے کے لیے اس سے مزاق کرتی رہتی۔آہستہ آہستہ جہانگیز بھی اس سے گھُل مل گیا۔ان دونو ن کو ہستا کھیلتا دیکھ کر کلیمُ اللہ بھی بہت خوش تھا کہ اسکو بیٹا بھی مل گیا اور گھر کی ویرانی بھی ختم ہو گئی۔
 جہانگیز نے کافی حد تک خود کو سمبھال لیا تھا۔اور اب وہ گاؤں کی ایک چھوٹی سی دوکان پر کام کرتاتھا۔ دوکان سے جو پیسے ملتے وہ کسی نا کسی طرح اپنی ماں تک پہنچا دیتا،وہ جانتا تھا کہ اسکی ماں یہ پیسے اسکے ہاتھ سے نہیں لے گی،اسکے لیے وہ ہر طرح کے تجربے آزماتا کہ انہیں شک بھی نا ہو اور پیسے بھی ان تک پہنچ جائیں۔۔۔۔۔ وہ کبھی کسی بچے کے ہاتھ پیسے بھیجتا،کبھ اپنی ماں کی گزرگاہ میں پیسے گرا دیتا اور چھپ کر دیکھتا جب تک وہ پیسے اٹھا نا لیتی
کلیمُ اللہ اور دعا اسے اسلام کی باریکیوں کے بارے میں اسے سمجھاتے رہتے۔وہ پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کرتا اور اسلام کے ہر قوائد وضوابط کو پورا کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی عرصے میں وہ ایک کامل بندہ مومن بن گیا۔
دعا کو پڑھنے کا شوق تھا، اور اسنے ضد کر کے میٹرک کے بعد ایف۔اے میں داخلا لے لیا۔گاؤں کے ایک پرائویٹ سکول کے زریعے لیکن وہ پڑھائی گھر بیٹھ کر ہی کرتی تھی۔اگر کچھ سمجھ نا آتا تو ایک دوست  سے مدد لے لیتی جو گاؤں کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ایک ماہ پہلے اسکی شادی ہو گئی اور اب دعا کو پڑھنے میں مُشکل پیش آ رہی تھی۔۔۔۔۔
ابو!

دو ماہ بعد پیپر ہیں،اور مجھے کچھ اسباق سمجھ نہیں آ رہے۔ صائمہ کی شادی ہو گئی ہے اور اسکے علاوہ گاؤں میں پڑھا لکھا صرف بانو خالہ کا بیٹا ہے اوراس کے پاس میں نہیں پڑھوں گی۔
اچھا میں کوشش کرتا ہوں اگر کوئی ایسا مل جائے(کلیم نے کہا)
ابو کوئی لڑکی ہی ہو۔ مجھے کسی لڑکے کے پاس نہیں پڑھنا
اچھا ٹھیک ہے۔کوئی لڑکی ہی ڈھونڈتا ہوں۔
کلیم نے چھان بین کر کے دعا کو بتایا کہ ساتھ والے گؤں میں ہے ایک لڑکی پڑھی لکھی۔وہ تمہیں پڑھا دے گی


اگلے دن وہ دعا کو ساتھ لے کر سلمان شاہ کے گھر پہنچا۔ وہ لڑکی ثانی ہی تھی جسے دعا کو پڑھانے کے لیے سدرہ نے مجبور کیا تھا،یہ سوچ کر کہ اسکا دل بھی لگا رہے گا اور کسی کی مدد بھی ہو جائے گی۔
اب سے کلیم روز دعا کو لے کر وہاں چلا جاتا۔ جب تک وہ پڑھتی صابر باہر بیٹھا انتظار کرتا۔ کبھی کبھار سلمان شاہ اسکے پاس آکر بیٹھ جاتا۔اور دونوں گپ شپ کرتے رہتے۔
دعا  تم سکیچنگ بھی کرتی ہو؟
ثانی نے اسکی نوٹ بُک پہ بنا سکیچ دیکھ کر پوچھا
نہیں، یہ تو میرے بھائی نے بنایا ہے(دعا نے جواب دیا)
ثانی نے سکیچ کو غور سے دیکھا۔ وہ دعا میں اُٹھے ہوئے ہاتھوں کا ایک بہت خوبصورت سکیچ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *